The story of the brilliant blind boy who invented Braille

بریل ایجاد کرنے والے ذہین نابینا لڑکے کی کہانی



BBCسن 1812 میں ایک دن فرانس کے شہر پیرس کے قریب کوپورے میں لوئس بریل ورکشاپ میں کھیل رہے تھے جہاں ان کے والد نے ’زِین‘ بناتے تھے۔ (زِین یعنی چمڑے کی وہ بیلٹ جس سے گھوڑے یا کسی بھی اور جانور کو قابو میں رکھنے کے لیے اُس کے چہرے کو بندھا جاتا تھا)۔تین سال کی عمر میں، ان کے لیے چمڑے کے کام کے لیے استعمال ہونے والے اوزاروں کی طرف راغب ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی کیونکہ وہ یہ سب دیکھتے رہتے تھے کہ اُن کے والد کیسے ان کی مدد سے زِین بناتے تھے۔ بس ایک دن انھوں نے اپنے والد کی نقل کرتے ہوئے ورکشاپ میں سے چمڑے میں سوراخ کرنے والا ایک انتہائی تیز دھار اوزار اُٹھایا اور اُس سے کھیلا شروع کر دیا۔ شاید یہ پہلی بار نہیں تھا جب وہ ایسا کر رہے تھے اسی وجہ سے اُن کے والد کی توجہ اُن کی جانب نہیں تھی، اور شاید نہ ہی کبھی اُنھیں ایسا کرنے سے روکا گیا تھا۔لوئس بریل ابھی اس سب میں مشغول ہی تھی اور اپنے والد کی نقل اُتارنے میں مصروف تھے کہ اچانک ایک ایسا حادثہ پیش آیا کہ جس نے ان کی زندگی بدل دی۔جیسے لوئس نے اس تیز دھار اوزار سے چمڑے میں سوراخ کرنے کی کوشش کی، ان کے ہاتھ سے وہ اوزار پھسل گیا اور اس نے اُن کی آنکھ پر گہری ضرب لگائی۔BBCآنکھ متاثر ہوئی اور انفیکشن نے نہ صرف زخمی ہونے والی آنکھ کو متاثر کیا بلکہ یہ انفیکشن دوسری آنکھ تک پھیل گیا۔لوئس پانچ سال کے ہوئے تو وہ مکمل طور پر نابینا ہو چُکے تھے۔اگرچہ مقامی سکول میں نابینا افراد کے لیے کوئی خاص پروگرام موجود نہیں تھا، لیکن ان کے والدین کی یہ کوشش تھی کہ وہ تعلیم سے محروم نہ ہوں اور انھیں پڑھنے کا موقع ملنا چاہیے، لہذا انھوں نے انھیں مقامی تعلیمی ادارے میں داخل کروا دیا۔ اب بریل 7 سال کے ہو چُکے تھے اور اُنھوں باقائدہ طور پر کلاسز لینا شروع کر دیں تھیں۔BBCاگرچہ ان کا تعلیم حاصل کرنے کا انداز مختلف تھا یعنی وہ بس سن کر تعلیم حاصل کر رہے تھے، لیکن وہ ایک ہونہار شاگرد ثابت ہوئے۔ تاہم جو مُشکل اُن کی راہ میں حائل رہی وہ یہ تھی کہ وہ پڑھنے یا لکھنے کے قابل نہ ہو سکے جس کی وجہ سے اُنھیں نقصان اُٹھانا پڑتا تھا۔آخر کار، اُن کی یہ تمام مُشکلات تب ختم ہوئیں کہ جب انھیں فرانس کے رائل انسٹی ٹیوٹ فار بلائنڈ یوتھ (آر آئی جے سی) میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ مل گئی۔ پیرس کا سفربریل 10 سال کے تھے جب وہ پیرس اور آر آئی جے سی پہنچے۔اس وقت، اس ادارے میں بھی پڑھنے کا جو نظام استعمال کیا جاتا تھا وہ بہت بنیادی تھا، ان چند کتابوں کو اُبھرے ہوئے حروف کے ساتھ چھاپا گیا تھا، ایک ایسا نظام جسے سکول کے بانی ویلنٹین ہائے نے ایجاد کیا تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ طالب علموں کو ہر حرف میں آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں چلانی پڑتی تھیں تاکہ الفاظ کی بناوٹ کو وہ سمجھ سکیں مگر ایک جملہ بنانے میں اور لفٌ کی بناوٹ سمجھنے میں اُنھیں خاصی مُشکل ہوتی تھی۔سن 1821 میں فرانسیسی فوج کے ایک کیپٹن چارلس باربیئر انسٹی ٹیوٹ میں ایک چھونے والے ریڈنگ سسٹم کو شیئر کرنے کے لیے آئے تاکہ فوجی اندھیرے میں میدان جنگ میں فلیش لائٹس آن کر کے دشمن کو خبردار کیے بغیر پیغامات پڑھ سکیں۔ان کے ذہن میں یہ خیال آیا تھا کہ ان کی ’نائٹ رائٹنگ‘، شاید بینائی سے محروم ان افراد کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔BBCحروف کے بجائے نقطے اور لکیریںایمبوسڈ خطوط استعمال کرنے کے بجائے، اُبھرے ہوئے حروف والی تحریر، نقطوں اور دھبوں کا استعمال کیا گیا تھا۔طالب علموں نے تجربات کیے لیکن جلد ہی جوش و خروش کھو دیا کیونکہ اس نظام میں نہ صرف سرمایہ کاری اور نہ ہی نشانات شامل تھے، بلکہ الفاظ معیاری فرانسیسی ہجے کے بجائے اس طرح لکھے گئے تھے جیسے وہ بولے گئے تھے۔تاہم ، لوئس بریل نے اصرار کیا۔اس نے کوڈ کو ایک بنیاد کے طور پر لیا اور اسے بہتر بنایا۔تین سال بعد جب وہ 15 سال کے تھے تو انھوں نے اپنا نیا نظام مکمل کر لیا تھا۔تبدیلیاں کیا کی گئیان کی تحریر کے نظام کا پہلا شمارہ 1829 میں شائع ہوا۔BBCاس میں حروف کے ساتھ نقطوں کے ساتھ اشارے دیے گئے تھے۔ انھوں نے بابیئر کے نظام کو آسان بنایا تھا اور ابھرے ہوئے نقطوں کو کم کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یہ اس مناسب سائز کے ہوں تاکہ آپ انھیں اپنی انگلی کے پور سے ایک ہی بار میں چھو کر محسوس کر سکیں۔BBCانھوں نے کاغذ پر ابھرے ہوئے نقطے بنانے کے لیے اسی ستالی (سوراخ کرنے کے لیے نوکدار اوزار) کا استعمال کیا جس سے ان کی بینائی متاثر ہوئی تھی۔ BBCاور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ لکیریں سیدھی اور درست ہیں انھوں نے ایک ہموار گرڈ کا استعمال کیا۔ BBCجیسا کہ لوئس بریل کو موسیقی پسند تھی لہّذا انھوں نے موسیقی کے نوٹس لکھنے کے لیے بھی ایک طریقہ متعارف کروایا۔ وقت گزرتا گیا۔۔۔طب کی دنیا بریل کی ایجاد کو اپنانے میں بہت قدامت پسند اور سست تھی۔ یہاں تک کہ ان کی موت کے دو سال بعد بینائی سے محروم افراد کو بلآخر اس طریقہ کار کے ذریعے پڑھایا جانے لگا۔ اور اس کا آغاز بھی اسے ادارے میں ہوا جہاں سے انھوں نے تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ 43 برس کی عمر میں تپ دق کے باعث ہلاک ہوئے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نظام فرانسیسی زبان بولنے والے ممالک میں استعمال ہونے لگا۔ 1882 تک یہ پہلے ہی یورپ میں استعمال کیا جا رہا تھا اور 1916 میں یہ شمالی امریکہ اور پھر باقی دنیا تک پہنچ گیا۔ایک اپنائے جانے والا طریقہ کاربریل سسٹم نے دنیا بھر میں بہت سے نابینا افراد کی زندگیاں بدل دیں۔ اسے دیگر یورپی رسم الخط زبانوں کی طرح بائیں سے دائیں پڑھا جاتا ہے، اور یہ کوئی زبان نہیں ہے: یہ ایک تحریری نظام ہے، جس کا مطلب ہے کہ اسے مختلف زبانوں میں ڈھالا جا سکتا ہے۔اور ریاضی اور سائنسی فارمولوں کے لیے بریل کوڈز تیار کیے گئے ہیں۔ تاہم بات کرنے والے کمپیوٹرز سمیت نئی ٹیکنالوجیز کی آمد کے ساتھ اس نظام میں خواندگی کی شرح کم ہو رہی ہے۔BBCبعد از مرگ اعزازسنہ 1952 میں لوئس بریل کی ایجاد کے لیے انھیں اعزاز دیتے ہوئے ان کی باقیات کو نکالا کیا گیا اور پیرس کے پینتھیون میں منتقل کیا گیا، جو فرانس کے چند مشہور قبرستانوں میں سے ایک ہے جہاں فرانس کے معروف دانشور رہنما دفن ہیں۔ تاہم ان کے آبائی علاقے کوپرے کے لوگوں نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاں دفن کرنے پر اصرار کیا جو آج بھی وہاں کے چرچ کے قبرستان میں ایک سادہ کلش میں دفن ہیں۔ناسا نے بھی انھیں خراج تحسین دینے کے لیے ان کے نام پر ایک نایاب قسم کے شہابیے کا نام ’9969 بریل‘ رکھا ہے، جو ایک عظیم انسان کے لیے ایک ابدی خراج تحسین ہے۔BBC

Post a Comment

0 Comments

Most Popular