‏افغانوں سے اقبال کی محبت

‏افغانوں سے اقبال کی محبت 🍁  

افغانستان بیسویں صدی میں عالمی طاقتوں کے لیے قبرستان بنا۔ روس اور برطانیہ کی ذلت آمیز شکست کے بعد سویت یونین نے بھی اس بہادر قوم کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ۔یہ سب کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
‏1933 کا زمانہ تھا جب مسلم دنیا استعماری قوتوں کے زیر سایہ کہیں اپنی شناخت کھو رہی تھی تو کہیں اس کی بازیابی کی سعی میں جستجوئے عمل تھی، ایسے میں ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے افغانستان استعماریت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر تاریخ رقم کر رہا تھا۔
‏دوسری جانب امت کی فکری  اور تہذیبی آبیاری کے خوابوں سے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے ہاں اضطراب اپنے عروج پر تھا۔ لازوال تاریخ، قربانیوں اور شجاعت کی وجہ سے اقبال کا افغان قوم کے ساتھ رومان اس حد تک بڑھا کہ انہوں نے اس قوم کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا فکری سرمایہ سپرد کیا.
‏تاریخ گواہ ہے کہ افغان سرزمین پر ابھرنے والے واقعات نے ایشیاء پر باالخصوص اور دنیائے عالم پر باالعموم انمٹ اثرات مرتب کیے۔ اس پس منظر کی روسے اقبال نے اپنے فارسی اشعار میں فرمایا:
آسیا یک پیکر آب وگل است
ملت افغان در آں پیکر دل است
از کشاد او کشاد آسیا
از فساد او فساد آسیا
‏(یعنی ایشیا پانی اور مٹی کا ایک بڑا وجود ہے اور افغانستان اس کا دل ہے۔ اس کے کھلنے اور پھلنے پھولنے سے ایشیا کی ترقی اور اسکے بگاڑ سے ایشیا میں فساد ہوگا)
علامہ محمد اقبال کی افغانوں کے ساتھ محبت کی ایک صدی گواہ ہے۔ 
‏انہوں نے وقتا فوقتا اس قوم کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا اور افادیت کے پیش نظر وعظ و نصیحت کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ محراب گل افغان ایک فرضی کردار کو مخاطب ہو کر فرمایا:
رومی بدلے ، شامی بدلے، بدلا ہندستان
تو بھی اے فرزند کہستاں! اپنی خودی پہچان
اپنی خودی پہچان
‏او غافل افغان!
موسم اچھا ، پانی وافر، مٹی بھی زرخيز
جس نے اپنا کھيت نہ سينچا، وہ کيسا دہقان
اپنی خودی پہچان
اسی طرح خوشحال خان کی وصیت کے عنوان سے بال جبریل میں لکھا
قبائل ہوں ملت کی وحدت ميں گم
کہ ہو نام افغانيوں کا بلند
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہيں کمند
‏افغانستان کے آباؤاجداد سے بھی اقبال کے فکری مراسم تھے۔ بال جبریل میں نادر شاہ کو ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں کہ

حضورِ حق سے چلا لے کے لُولوئے لالا
وہ ابر جس سے رگِ گُل ہے مثلِ تارِ نفَس
بہشت راہ میں دیکھا تو ہو گیا بیتاب
عجب مقام ہے، جی چاہتا ہے جاؤں برس
‏صدا بہشت سے آئی کہ منتظر ہے ترا
ہرات و کابل و غزنی کا سبزۂ نورس
سرشکِ دیدۂ نادر بہ داغِ لالہ فشاں
چناں کہ آتشِ او را دگر فرونہ نشاں!

احمد شاہ ابدالی کے مزار پر کھڑے ہوکر فرمایا

تربت آن خسرو روشن ضمیر
از ضمیرش ملتی صورت پذیر
مثل فاتح آن امیر صف شکن
سکہ ئی زد ھم بہ اقلیم سخن
‏(یہ روشن دل بادشاہ کی قبر ہے۔اس کے ضمیر سے ایک نئی قوم نے تشکیل پائی۔ فاتح { قسطنطنیہ} سلطان محمد فاتح کی طرح اس صف شکن نےشاعری کی دنیا میں اپنا سکہ جمایا)
اقبال کی افغان قوم سے محبت محض فکر تک محدود نہیں تھی، بلکہ عملی طور پر بھی 1919 میں افغانستان کی آزادی 
‏اور خودمختاری کے سلسلے میں افغان حکمرانوں کو عطیات پیش کیں۔ 1933 میں  نادر شاہ کی دعوت پر جب انہوں نے افغانستان کا دورہ کیا تو جہاں ایک طرف اپنے محبوب ملک کی دیدار انہیں نصیب ہوئی وہیں افغانستان نے ان کے علمی میراث میں خود کوبھی حصہ دار بھی جانا۔

Post a Comment

0 Comments

Most Popular